تحریر:حافظ نعیم احمد سیال
”شہروز تمہاری تیا ری مکمل ہو گئی“؟ انور نے شہروز سے پوچھا۔
”ہاں انور میری تیا ری مکمل ہوگئی. میرا پاسپورٹ ویزا سب مکمل ہے۔اب میں لندن کی آ زاد فضاؤں میں گھوموں گا۔ جہاں صرف سکھ ہی سکھ ہو گا۔ یہاں سے تو ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ جائے گی۔“ شہروز خوشی سے بول رہا تھا۔
”کیا ……؟“انور حیرت اچھل پڑا۔
”مجھے افسوس ہے شہروز! کہ تم لندن پاکستان چھوڑنے کی نیت سے جا رہے ہو۔ میں تو سمجھا تھا کہ تم اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہا ں جاؤ گے اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہاں آ کر اپنے ملک کی خدمت کروگے۔ مگر تمہاری باتوں سے تو ایسے لگ رہا ہے کہ اب تم کبھی بھی اپنے ملک نہیں آ نا چاہتے۔“
”ہاں میں اپنے ملک واپس نہیں آ نا چاہتا۔بس ایک دفعہ یہا ں سے چلا جاؤں، یہاں تو کسی کو چین بھی میسر نہیں، جہاں لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہوں، جہاں کسی کوکوئی آزادی میسر نہ ہو، ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہو، جہاں روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہو، وہاں اس ملک میں رہ کر میں کیا کروں گا۔؟ بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں گا۔“ شہروز نے اپنا فیصلہ سنایا اور وہاں سے چلا گیا جب کہ انور اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسے دوست کی جدائی کا صدمہ نہیں تھا اسے تو صرف یہی دکھ تھا کہ شہروز نے اپنے ملک کے لئے کس طرح کی گھٹیا سوچیں اپنے ذہن میں پالی ہوئی تھیں۔ وہ ملک جس نے ہم سب کو آ زادی دی۔ ہمیں تحفظ دیا۔ وہ دھرتی ماں جس کی گود میں ہمیں سکون ملتا ہے۔ جہاں ہم اپنوں کے ساتھ رہتے ہیں۔اس پاک دھرتی میں ہمارے بزرگوں کی قربانی کا خون شامل ہے۔ کیا شہروز واقعی اس ملک کو چھوڑ دے گا؟ اس کی آنکھوں سے آنسو تیز تیز بہنے لگے۔ اس کا ذہن ماضی کے واقعا ت میں کھو گیا۔ جب وہ دونوں ابھی پانچ سال کے تھے۔چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ گہرے دوست بھی تھے۔ شام ہوتے ہی وہ دونوں اپنے دادا جان کے پاس چلے جاتے جہاں دادا جان انہیں مزے مزے کی کہانیاں، تاریخی واقعات، اور پاکستان بننے کی داستانیں سناتے تھے وہ خوشی خوشی سنا کرتے تھے۔ دادا جان نے ایک دفعہ بتایا کہ اس ملک کو قائداعظم نے بنایا۔ یہ ملک ہمارا ہے اور یہاں پر ہی ہم نے جینا اور مرنا ہے۔ دادا جان کی باتیں اتنی پر اثر ہوتی تھیں کہ شہروز جوش میں آ کر بے اختیار کہ اٹھتا...
”دادو جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو میں بھی پاکستان بناؤں گا، پھر میں سب کو بتاؤں گا کہ یہ میرا پاکستان ہے، میں اپنا پاکستان اپنے پاس رکھوں گا، میں اپنے پاکستان کی حفاظت کروں گا۔ اگر کسی نے بھی میرے پاکستان کو گرانے کی کوشش کی تو میں اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا۔ پاکستا ن صرف اور صرف میرا ہی ہوگا اس کے بعد وہ انور اور دادا جان کو صحن میں لاتا جہاں ریت پڑی ہوتی تھی، وہ ریت کا ایک گھر تیار کرتا تھا اور اس کی چھت پر ماچس کی ایک چھوٹی سی تیلی لگا کر اس پر ایک چھوٹا سا پرچم لگاتا اور کہتا دیکھو، میرے پاکستان کا جھنڈا۔۔۔۔۔ میں اپنے پاکستان میں رہوں گا مگر آج وہ دونوں جوان تھے ان کے جذبے کی اس ملک کو ضرورت تھی تو شہروز کی سوچ تبدیل ہو چکی تھی، ملک میں کچھ عرصے سے فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ روشنیوں کا شہر اندھیروں میں ڈوب چکا تھا۔ پورے دن کی لوڈ شیڈنگ اور آئے روز ہونے والے دھماکوں نے شہروز کو بے چین کر دیا تھا اب وہ اس ملک سے دور جانا چاہتاتھا۔
اگلے روز شہروز تیاری کر کے انور کے پاس آگیا۔
”انور میں تمہیں ملنے آیا ہو ں، دیکھو! میری تیاری مکمل ہے اور میں جا رہا ہوں۔ کاش تم بھی میرے ساتھ ہوتے تو کتنا مزہ آتا۔“ شہروز جوش سے بول رہا تھا مگر انور کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”کیاہوا……؟ تم چپ کیوں کھڑے ہو؟ اور تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟ اوہ…… اب میں سمجھا کہ تم میری جدائی میں رو رہے ہو۔ یار میں تمہیں روزانہ فون کیا کروں گا۔“ انور نے جواب میں شہروز کا ہاتھ پکڑا اور اسے گھسیٹتا ہوا باہر صحن میں لے آیا۔
”دیکھو شہروز……!“ انور نے ایک طرف اشارہ کیا۔ شہروز یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں ریت کا ایک گھر بنا ہوا تھا، ویسا گھر جیسے وہ بچپن میں بنایا کرتا تھا۔ اس کی چھت پر ماچس کی تیلی کے ساتھ جھنڈا بھی لگا ہوا تھا مگر اس گھر کی دیواروں پر دراڑیں پڑی ہوئی تھیں جو انور نے جان بوجھ کر بنائی تھیں۔
”دیکھو شہروز! یہ تمہارا پاکستان ہے، آج تمہارے پاکستان کی دیواروں پر دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ ان دیواروں کو مضبوط کرنے کے لیے تمہارے بازوؤں کی ضرورت ہے۔ شہروز تمہارا پاکستان گرنے والا ہے، اسے تم نے بچانا ہے۔ ہاں شہروز! تم کہا کرتے تھے ناں کہ میں اپنے پاکستان کی حفاظت کروں گا۔ یاد کرو جب تم مجھے اور داداجان کو پکڑ کر یہاں لاتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے پاکستان بناتے تھے اور عہد کرتے تھے کہ میں بڑا ہو کر پاکستان کی حفاظت کروں گا اور اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے ملک کی حفاظت کریں، اسے سنواریں اور دشمنوں کے عزائم خاک میں ملا دیں، اس وقت اس دھرتی ماں کو ہماری ضرورت ہے اگر تمہاری طرح ہر نوجوان پاکستان کو چھوڑ کر دیار غیر میں جاتا رہا تو یہا ں کا ٹیلنٹ تو اغیار کے پاس چلا ہی جائے گا مگر تمہارا پاکستا ن کنگال ہو جائے گا۔“
انور کی باتوں نے شہروز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اسے اپنے بچپن کی سب باتیں یاد آگئی تھیں اس نے انور سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور ریت کے اس گھر کی طرف لپکا جس کی دیواروں میں دراڑیں پر چکی تھیں اس نے اپنے ہاتھوں سے وہ دیواریں بنانا شرو ع کردیں وہ کہہ رہا تھا۔
”نن……نن……نہیں! میں اپنے پاکستان کو نہیں گرنے دوں گا۔ یہ میرا پاکستان ہے، یہ ہم سب کا پاکستان ہے، ہم سب اس کی حفاظت کریں گے، انور مجھے معاف کر دو میں اپنے پاکستان کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا، میرا پاکستان بہت پیارا ہے، بہت خوبصورت ہے مگر اس کو دشمنوں کی نظر لگ چکی ہے اس لیے اس کی دیواریں کمزور ہو گئی ہیں، مجھے واقعی اس کی دیواریں مضبوط کرنی ہوں گی۔“ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ جذب کے عالم میں بول رہاتھا۔
”آؤ انور! ہم دونوں مل کر پھر اس کو مضبوط پاکستان بناتے ہیں، پھر ہم اس کی حفاظت کریں گے کیوں کہ یہ میرا پاکستان ہے، یہ ہم سب کا پاکستان ہے۔“ شہروز نے بچپن کی طرح جوش میں آ کر نعرہ لگایا تو انور نے اسے گلے سے لگا لیا۔چھوٹے سے ریت کے گھروندے پر لہراتا ہوا پاکستان کا پرچم بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
0 Comments