ندگی میں انسان کو کبھی نہ کبھی کسی لمبے سفر سے واسطہ ضرور پڑتا ہے، بعض سفر یادگار ثابت ہوتے ہیں اور بعض سفر زندگی کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔
بہرحال پچھلے دنوں میرا بھی ایک لمبے سفر سے واسطہ پڑا، جو میری زندگی کے لیے یادگار ثابت ہوا۔ ملتان سے کوئٹہ تک کا سفر بزریعہ چلتن ایکسپریس مجھے 21 گھنٹوں میں کرنا پڑا۔ سفر میں میرے سکول کے بیسٹ ٹیچر سر رمضان صابر صاحب، میرے بہترین دوست عظیم عباس اور ان کی والدہ میرے ہمراہ تھیں۔ ہم نے اتوار کی رات پونے دس بجے ملتان سے روانہ ہونا تھا۔ میں نے سامانِ سفر باندھا اور سیدھا ملتان کینٹ ریلوے اسٹیشن ساڑھے نو بجے پہنچ گیا۔ وہاں عظیم عباس اور ان کی والدہ میری آمد کے منتظر تھے، اس دوران ہم نے سر جی کو بھی اسٹیشن میں داخل ہوتے دیکھا، ہم چاروں افراد نے اسٹیشن پر جمع ہونا تھا۔ وقت پر گاڑی روانہ ہوئی، ملتان کی گرمی سے ہم تنگ تھے، اس لئے سوچا کہ کچھ دنوں کے لیے ٹھنڈے مقامات کی سیر کر آئیں۔ میرے دوست عظیم عباس کے بھائی نادر علی صاحب کوئٹہ میں ہی رہتے ہیں، وہ وہاں پر جاب کرتے ہیں، انہوں نے اپنی والدہ اور بھائی عظیم عباس کو کوئٹہ بلوایا تھا۔ جس پر میرا اور سر جی کا پروگرام بھی انہیں کے ساتھ کوئٹہ جانے کا بن گیا۔ اس لئے ہم چاروں اکھٹے سفر کر رہے تھے، جب ہمارا سفر شروع ہوا اس وقت ملتان کا موسم بھی خوشگوار ہونے لگا، شاید ملتان کا موسم ہمارے جانے کے انتظار میں تھا۔ میں نے سرجی کو کہا: ”سر جی دیکھیں جب ہم جا رہے ہیں تو اس وقت موسم اچھا ہو رہا ہے۔“ 
سر جی نے کہا:”چلیں خیر کوئی بات نہیں، وہاں کا موسم اس سے بھی زیادہ خوشگوار ہو گا۔“ جس پر میں اور عظیم عباس کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
سفر میں ہم نے اپنے ساتھ کچھ معلوماتی کتابیں بھی رکھی تھیں، جب دل کرتا کتاب اٹھا کر بیٹھ جاتے اور اس کا مطالعہ کرتے، بھوک جب ستاتی تو میرے دوست کی والدہ ہمارے کھانے پینے کا اہتمام کرتیں، غرض سفر بہت اچھا گزر رہا تھا، راستے میں ہم نے خوبصورت مقامات کے نظارے دیکھے، کوئٹہ پہنچنے سے تقریباً پانچ یا چھے گھنٹے پہلے پہاڑی مقامات کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ ریل گاڑی پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ہوئی جا رہی تھی اور میں حیرت سے ان پہاڑوں کا جائزہ لے رہا تھا، جگہ جگہ پر رکھے ہوئے مختلف قسم کے بڑے بڑے پتھروں کے تودے میری حیرت میں اضافہ کر رہے تھے۔ کئی کئی من کے وزنی پتھر میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے، چونکہ یہ میری زندگی کا پہلا لمبا سفر تھا اس لیے میں کچھ دل ہی دل میں ڈر بھی رہا تھا، راستے میں ٹرین کئی سرنگوں میں سے گزری، جب ٹرین کسی سرنگ میں سے گزرتی تو میرا دل دھک دھک کرنے لگتا تھا اور بے اختیار زبان پر درود شریف جاری ہوجاتا، بہرحال اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم کوئٹہ بخیروعافیت پیر کی شام سات بجے پہنچ گئے۔ کوئٹہ اسٹیشن پر نادر علی صاحب ہمارے منتظر تھے، ہم اسٹیشن سے باہر نکلے تو نادر صاحب نے ہمیں جیپ میں بٹھایا اورجیپ روانہ ہوگئی، ہماری رہائش کا بندوبست پہلے سے ہی انہوں نے ایک ہوٹل میں کیا ہوا تھا، جب ہوٹل آیا تو ہم اتر گئے انہوں نے ہمیں ہوٹل میں ٹھہرایا اور اپنی والدہ اور بھائی (میرے دوست عظیم عباس) کو لے کر چلے گئے، میں بہت تھکا ہوا تھا اس لئے ہوٹل آتے ہی فوراً خواب خرگوش کے مزے لینے لگا، تھوڑی دیر بعد سرجی بھی سو چکے تھے، نادر صاحب کی خالہ جان بھی کوئٹہ میں ہی رہتی ہیں، ان کا گھر ہمارے ہوٹل کے قریب تھا، اس لئے جتنے دن ہم کوئٹہ میں رہے،ہمارے کھانے پینے کا بندوبست انہی کی طرف سے ہوتا تھا، انہوں نے ہمیں کوئٹہ میں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونے دی، ہماری ضرورتوں کا خیال رکھا، اگلے دن یعنی منگل کی صبح نادر صاحب ہمیں ناشتہ دینے آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم آج شام زیارت روانہ ہوں گے، میں ابھی دفتر جا رہا ہوں، اس دوران عظیم عباس آپ کو کوئٹہ کے مختلف بازار دکھائیں گے، ناشتے کے بعد ہم نے وہاں کے مختلف بازار دیکھے، ماشاء اللہ یہاں کے بازار بہت بڑے اور کشادہ ہیں، ہر چیز سہولت سے مل جاتی ہے، سڑکیں بڑی ہونے کی وجہ سے ٹریفک کا ہجوم بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، یہاں کے لوگ بھی بہت مہمان نواز ہیں، ایک دوسرے سے محبت و پیار سے بولتے ہیں، اس بات کا ثبوت میں خود دے سکتا ہوں وہ اس لئے کہ میرے دوست کی خالہ جان نے ہمارا بہت خیال رکھا۔ انہوں نے جس طرح ہماری مہمان نوازی کی وہ ناقابل بیان ہے۔ بس اس تحریر کے ذریعے ہی میں ان کا شکریہ ادا کر سکتا ہوں۔
پورا دن ہمیں کوئٹہ کے بازار دیکھنے میں لگ گیا۔ شام 4 بجے نادر صاحب آئے تو ہم بالکل تیار تھے، جب ہم بس اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ زیارت کو جانے والی گاڑی روانہ ہو چکی ہے، ہم کچھ لیٹ ہو گئے ہیں اور یہ گاڑی آخری گاڑی تھی، جس پر مجھے کچھ دلی افسوس ہوا بہرحال نادر صاحب نے یہ پروگرام اگلے دن پر ملتوی کر دیا اور ہم واپس ہوٹل آ گئے، وقت گزارنے کے لئے کتابیں تو ساتھ رکھی ہوئی تھیں اس لیے ایک کتاب اٹھائی اور اس کا مطالعہ کرنے لگا۔
بدھ کی صبح نادر صاحب دس بجے آئے، موبائل پر میسج کے ذریعے انہوں نے ہمیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آپ اپنی تیاری کر رکھیں، ہم دس بجے زیارت روانہ ہو رہے ہیں، جب وہ آئے ہماری تیاری مکمل تھی ان کے ساتھ ان کا چھوٹا خالہ زاد بھائی حارث بھی تھا، حارث بہت ہی اچھا خوبصورت اور معصوم بچہ ہے، راستے میں ہم سب اس کی بھولی بھالی شرارتوں سے محظوظ ہوتے رہے۔ سرجی بار بار اس کی شرارتوں پر مسکراتے رہے، میں بھی اس کی شرارتوں سے خوش ہو رہا تھا۔ راستے میں ہم ٹھنڈی ٹھنڈی لسی سے لطف اندوز ہوئے، لسی کو پشتو میں شرمبے کہتے ہیں۔ ادھر نادر صاحب لسی والے سے پشتو میں بات کر رہے تھے ادھر میں کھڑا ہوا ان کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ مسکرا بھی رہا تھا، سوچ رہا تھا کہ ہمارے پاکستان کی تمام علاقائی زبانیں اپنی اپنی جگہ بہت اچھی ہیں، میں خود سرائیکی ہوں، جہاں مجھے اپنی زبان سے محبت ہے وہاں دوسری زبانوں کو ٹھکرایا نہیں جا سکتا، اس لئے پشتو زبان سن کر میں لطف اندوز ہو رہا تھا۔ تقریباً دو بجے دوپہر ہم زیارت پہنچ گئے، یہاں پر بھی نادر صاحب کے کچھ جاننے والے موجود ہیں۔ اس لیے ادھر بھی ہمیں رہائش کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہوا، انھوں نے ہمیں اپنے ایک دوست کے آفس میں ٹھہرایا، دوپہر کا کھانا کھا کر ہم نے بابا خرواریؒ کے مزار پر جانے کا پروگرام بنایا، ہم نے کرائے پر ٹیکسی لی اور چل پڑے، ڈرائیور ساتھ ساتھ ہماری راہنمائی کر رہا تھا، وہ ہمیں یہاں کی مختلف چیزوں کے بارے میں بتا رہا تھا، چاروں طرف آسمان سے باتیں کرتے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ اور ٹھنڈے میٹھے موسم نے مزہ اور بھی دوبالا کر دیا تھا، ایک پہاڑ پر ہماری نظر پڑی، وہاں پر خوبصورت جلی حروف میں اللہ لکھا ہوا تھا، لوگوں نے بتایا کہ یہ قدرتی طور پر لکھا ہوا ہے، اللہ تعالی کی ایک اور قدرت دیکھیں وہاں پر
ایک درخت ایسا بھی ہے جس کی شاخیں ایسی بنی ہوئی ہیں جیسے اللہ لکھا ہو، ساتھ ہی ایک بورڈ آویزاں ہے، جس پر لکھا ہے کہ اس درخت پر چڑھنا منع ہے جہاں واضح طور پر اللہ لکھا ہوا ہے، میری زبان پر بے اختیار اللہ تعالی کی حمد و ثنا جاری ہوگئی اور میں سوچنے لگا کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کے کیسے کیسے مظاہر دکھائے ہیں، گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور میں خوبصورت مناظر دیکھنے میں محو تھا، درمیان میں سڑک کے دونوں طرف کئی کئی فٹ گہری کھائیاں، ایسے لگتا تھا کہ کوئی ہاتھ لگائے گا اور میں نیچے گر پڑوں گا۔ بہرحال کچھ دیر بعد باباخرواری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار آ گیا۔
بابا خرواری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مجھے بہت پسند آیا، بہت سے لوگ مزار کی زیارت کے لئے آئے ہوئے تھے، بابا خرواری رحمۃ اللہ علیہ کا اصل نام ملا محمد طاہر ہے، آپ کے دادا کا نام ملا محمد خان رحمتہ اللہ علیہ تھا، آپ نے اپنی ساری تعلیم اپنے دادا سے حاصل کی، آپ کے دادا اپنے زمانے کے بہت بڑے بزرگ اور عالم دین تھے، ہم مزار کے اندر داخل ہوئے، بابا خرواری رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت کے مطابق ہم نے سب سے پہلے ان کے دادا ملا محمد خان رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر حاضری دی، مزار کے اندر داخل ہوں تو سامنے ایک بورڈ لگا ہے جس پر  بابا خرواری رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت درج ہے، وہاں پر لکھا ہے کہ سب سے پہلے ان کے دادا کی قبر پر حاضری دی جائے، پھر ان کی قبر پر آئیں، ہم نے ان کے دادا کی قبر پر فاتحہ خوانی کی، دعا مانگی اور باباخرواری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے پاس آئے وہاں پر بھی ہم نے فاتحہ خوانی کی اور دعا مانگی، ویسے میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتا دوں جسے پڑھ کر آپ حیران ہوں گے وہ بات یہ ہے کہ زیارت کا اصل نام غوسکی ہے لیکن بابا خرواری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی وجہ سے غوسکی کی کا نام زیارت پڑ گیا کیونکہ مزار کو پشتو میں زیارت کہتے ہیں، مزار کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد واپسی سے پہلے ہم نے وہاں پر کولڈ ڈرنکس سے جسم و جان کو سکون بخشا۔ اس دوران ہمیں شام ہو گئی اگلے دن ہمارا ارادہ قائداعظمؒ کی ریزیڈنسی جانے کا تھا، اس جگہ کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہاں پر گزارے تھے، یہی ان کی وفات ہوئی تھی، قائداعظم کی جب طبیعت خراب ہوئی تو ڈاکٹروں نے ان کو یہاں پر رہنے کا مشورہ دیا کیونکہ یہ علاقہ بہت ٹھنڈا اور ہوادار ہے، گرمی بہت کم پڑتی ہے اس لیے قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری دن یہاں گزارے، اس خوشگوار موسم کی وجہ سے تو ہم یہاں آئے تھے بہرحال ہم نے رات جیسے تیسے بسر کی، صبح ہوتے ہی قائداعظم کی ریذیڈنسی کی طرف چل پڑے، جب ہم وہاں پہنچے تو گیٹ ابھی بند تھا اور لوگ بھی آئے ہوئے تھے جو باہر کھڑے تھے، ہم نے بھی باہر کچھ دیر انتظار کیا آخرکار وہاں کے چوکیدار نے گیٹ کھولا تو ہم قائداعظم کی ریذیڈنسی کے اندر داخل ہوئے، ہوا کے خنک جھونکے ہمارے جسم سے ٹکڑا رہے تھے، موسم بہت خوشگوار تھا، سرد علاقہ ہونے کی وجہ سے مجھے ہلکی ہلکی ٹھنڈ لگ رہی تھی، رات بھی ہم نے رضائیوں میں گزاری تھی، ہم نے وہ کمرے دیکھے جہاں پر قائداعظم مہمانوں سے ملتے تھے، یہاں پر ہر کمرہ علیحدہ علیحدہ بنا ہوا ہے، مہمانوں کو ملنے کے لئے الگ کمرہ اور ان کی خاطر تواضع کے لئے بھی علیحدہ کمرہ تھا، اوپر والے کمرے میں قائداعظم آرام فرماتے تھے ساتھ ہی کچھ اور کمرے بنے ہوئے تھے جہاں پر قائداعظم اپنے ذاتی معاملات سلجھاتے تھے، ایک الگ مخصوص کمرہ محترمہ فاطمہ جناح کے لئے بھی تھا،قائداعظم کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح نے ان کی بہت تیمارداری کی، کمرے بہت خوبصورت بنے ہوئے تھے،ہر چیز سے نفاست ٹپک رہی تھی، قائداعظم کی ریزیڈنسی دیکھنے کے بعد دل کو مزید
بہلانے کے لیے ہم نے وہاں پر گالف بال بھی کھیلی، درختوں سے پھل توڑ کر کھائے اس کے بعد ہم کوئٹہ واپس آ گئے، راستے میں ہلکی ہلکی بارش بھی ہوتی رہی، جمعہ کو ہمارا وادی اوڑک جانے کا پروگرام تھا۔ نادر صاحب کے کچھ دوست اور ہم وادی اوڑک جمعہ کی نماز کے بعد روانہ ہوئے، وادی اوڑک بہت خوبصورت جگہ ہے، یہاں پہاڑوں پر ایک بہت بڑا ٹھنڈے پانی کا چشمہ ہے، پہاڑوں پر موجود یہ چشمہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا، لوگوں کا کافی ہجوم اس وادی کی سیر کے لئے آیا ہوا تھا، نادر صاحب ان کے دوست اور عظیم عباس اس چشمے میں نہانے لگے، میں نے جب پانی میں ہاتھ ڈالا تو مجھے پانی برف کی طرح ٹھنڈا محسوس ہوا، بہرحال ان کو دیکھتے ہوئے میں نے بھی چشمے میں چھلانگ لگا دی، ہم مزے سے چشمے میں نہاتے رہے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے سردی کا احساس ہوا تو میں چشمے سے فوراً باہر نکل آیا، میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور ایک الگ جگہ پر بیٹھ گیا، کچھ دیر بعد سردی کا احساس کم ہو گیا لیکن طبیعت خراب ہونے لگ گئی تھی، رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا لوگ واپس جا رہے تھے، ہم نے بھی واپسی کی ٹھانی، راستے میں سب کی خواہش تھی کہ حنہ جھیل دیکھیں گے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہم حنہ جھیل نہ دیکھ سکے، پھر میری طبیعت بھی بہت خراب تھی میں بھی چاہتا تھا کہ جلدی سے ہوٹل پہنچ جائیں آخرکاررات 9 بجے ہوٹل پہنچ گئے، بہت تھکے ہوئے تھے اس لئے جلد ہی نیند نے ہمیں اپنی آغوش میں لے لیا، ہفتے والے دن عظیم عباس نے ہمیں وہاں کی ایک بہت بڑی مسجد (جس کا نام صدیقیہ مسجد) ہے کی سیر کرائی۔ ظہر کی نماز ہم نے وہی ادا کی، اس کے بعد ہم مسجد طوبیٰ بھی گئے یہ بھی ایک بہت بڑی اور خوبصورت مسجد ہے، شام کو نادر صاحب آئے اور ہمیں بازار لے گئے وہاں پر ہم نے شاپنگ کی، میں نے اپنے بھتیجوں کے لئے گفٹ خریدے جب ہوٹل واپس آئے تو میں کافی سارے سامان سے لدا ہوا تھا ہم نے چیزیں سنبھالیں، پیر کے دن ہمارے واپسی تھی۔ اتوار والے دن (یعنی واپسی سے ایک دن پہلے) نادر صاحب کی خالہ جان نے ہمیں اپنے گھر دعوت پر بلایا وہاں پر انہوں نے ہماری خوب خاطر تواضع کی، اور حسن اخلاق سے پیش آئیں، گھر کے سبھی افراد ہمارے آنے پر خوش تھے، چھوٹے بڑے سب کی خوشی دیدنی تھی، پیر کی دوپہر دو بجے ہمیں کوئٹہ سے روانہ ہونا تھا، آخر وہ وقت آ گیا جب ہماری ٹرین کوئٹہ اسٹیشن سے روانہ ہو رہی تھی، میری آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے۔
زندگی کے یادگار لمحات میں اپنے دل میں بسائے اپنے شہر واپس جا رہا تھا، دل کرتا تھا کہ یہاں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہ جاؤں مگر اپنوں کی یاد بھی تو ستا رہی تھی اس لیے دل کو بہلاتا رہا، کیوں کہ میری منزل میرا اپنا شہر اور گھر ہی تھا، واپسی پر ہم نے نادر صاحب کا شکریہ ادا کیا۔ میں اور سر جی تو ملتان واپس آ گئے جب کہ عظیم عباس اور ان کی والدہ صاحبہ ابھی کوئٹہ میں تھیں۔ انہوں نے موسم گرما وہاں گزارنا تھا۔ سارے سفر میں بارش بھی ہوتی رہی میری زندگی کے لیے یہ سفر ایک یادگار ثابت ہوا اور میں اس سفر کو کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا۔

میں لوٹ آیا ہوں اپنے شہر سبزہ و گل سے
مگر حیات انہی ساعتوں پر مر مٹتی ہے