تحریر: حافظ نعیم احمد سیال
اچانک ہلکی سی آہٹ پیدا ہوئی اور خالو ہلاگلا کی آنکھ کھل گئی، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے انہوں نے خالہ ہلچل کی طرف دیکھا جو گھوڑے بیچ کر سو رہی تھیں۔
"اجی سنتی ہو!" خالو ہلاگلا نے خالہ ہلچل کو آواز دی مگر خالہ ہلچل سوتی رہیں۔
"میں نے کہا سنتی ہو۔" خالو ہلاگلا نے پھر آواز دی اب کی بار خالہ ہلچل آنکھیں ملتی ہوئی اٹھ بیٹھیں۔
"کیا ہوا؟ کیوں شور مچا رکھا ہے؟" خالہ ہلچل بولیں۔
"مجھے لگتا ہے گھر میں چور گھس آئے ہیں۔" خالو ہلاگلا بڑبڑاۓ۔
"تو اس میں بڑبڑانے کی کیا ضرورت ہے؟ چور ہی آئے ہیں نا کوئی ڈاکو تو نہیں آ گئے چلو سو جاؤ۔" خالہ ہلچل نے لاپروائی سے جواب دیا۔
"اے پگلی! چور اور ڈاکو میں کوئی فرق نہیں ہوتا، دونوں کا کام مال لوٹنا ہی ہوتا ہے، تم مذاق سمجھ رہی ہو میری اس بات کو، دیکھو ابھی بھی کسی چیز کے کھڑکھڑانے کی آوازیں آ رہی ہیں۔" خالو ہلاگلا آواز کی طرف کان لگاتے ہوئے بولے۔ خالہ ہلچل نے غور کیا تو واقعی چیزوں کی کھڑکھڑانے کی آوازیں آ رہی تھیں اب تو آوازوں میں اضافہ ہوگیا دونوں ڈر کر بیٹھ گئے۔
خالو ہلاگلا چاہتے تھے کہ ان کی بیگم باہر جا کر دیکھے کہ باہر کیا ہو رہا ہے جب کہ خالہ ہلچل کا بھی یہی حال تھا، اب دونوں ہی ضد کر کے کمرے میں بیٹھے رہے باہر کوئی نہ گیا۔
چیزوں کے کھڑکھڑانے کی آوازیں مسلسل تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ آخر کار خالو ہلاگلا نے ہمت کی اور باہر صحن میں آ گئے۔ مگر انہیں صحن میں کوئی نظر نہیں آیا۔
"بیگم مجھے تو یہاں کچھ بھی نظر نہیں آرہا؟" خالو ہلاگلا نے آواز لگائی۔
"آپ لائٹ جلائیں گے تو نظر آئے گا۔" خالہ ہلچل بٹن آن کرتے ہوئے بولیں۔
جیسے ہی خالہ ہلچل نے لائٹ جلائی دونوں اچھل کر دور جا گرے، ایک بلی تیزی سے بھاگتے ہوئے ان کے آگے سے گزر گئی، خالو ہلاگلا نے تو اپنے آپ کو گرنے سے سنبھال لیا مگر خالہ ہلچل خود کو نہ بچا سکیں، وہ دھڑام سے بہت زیادہ ہی دور جاگری تھیں اور زور زور سے ہانپنے لگیں۔
"کیا ہوا؟ بلی سے ڈر گئی ہو۔" خالو ہلاگلا ہنستے ہوئے بولے۔ خالہ ہلچل نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں۔
مولوی بشیر تہجد کی نماز کیلئے اٹھا ہوا تھا اس نے بھی کھٹ پٹ کی آوازیں سنیں تو بول اٹھا۔
"خالو ہلاگلا خیر تو ہے تمہارے گھر میں خوب ہلچل مچی ہوئی ہے۔"
"ارے نہیں ہلچل مچی ہوئی نہیں ہے بلکہ ہلچل گری ہوئی ہے بلی سے ڈر گئی تھی تم جاؤ نماز پڑھو۔" خالو ہلاگلا خالہ ہلچل کو اٹھاتے ہوئے بولے۔
"توبہ توبہ آج کل تو بلیاں بھی گھروں میں چوروں کی طرح گھستی ہیں۔ خواہ مخواہ نیند خراب کر دی۔" خالہ ہلچل کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اٹھ بیٹھیں اور بیڈ پر جا کر لیٹ گئیں۔
ابھی صبح ہوئی ہی نہیں تھی کہ تھانیدارنی ان کے گھر آ ٹپکی۔
"خالہ ہلچل میں نے سنا ہے رات کو تمہارے گھر چور گھس آئے تھے، ارے پورے محلے والوں کو تمہارے گھر سے شور شرابے کی آوازیں آ رہی تھیں، مولوی بشیر نے تو مسجد میں تمہاری حفاظت کے لیے خوب گڑگڑا کر دعائیں کیں، تھانیدار صاحب بھی کہہ رہے تھے کہ خالو ہلاگلا اور خالہ ہلچل کے گھر جاکر خیر خیریت دریافت کر آؤ، بتاؤ رات ٹھیک طرح گزری یا نہیں۔" تھانیدارنی اونچی آواز میں بولی۔
تم جب بھی بولنا منحوس بولنا، تمہارے منہ سے پتہ نہیں کیوں ہر وقت خاک نکلتی رہتی ہے، ہمارے گھر میں چور نہیں بلی گھسی تھی اور تمہارے میاں تھانیدار ہر وقت کسی بھوکی بلی کی طرح گھات لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی واردات ہو اور وہ تفتیش کا عمل شروع کریں، جیسے انہوں نے تمہیں ہماری تفتیش کے لیے بھیج دیا۔" خالہ ہلچل منہ پھلا کر بولیں۔
"خالہ ہلچل کیوں ناراض ہوتی ہو؟ میں تو ویسے ہی پتہ کرنے آگئی تھی، آخر ہمسایوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔" تھانیدارنی نے کہا اور معذرت کر کے چلی گئی۔
"ہوں! بڑی آئی ہمسایوں کے حقوق پورا کرنے والی۔" خالہ ہلچل نے منہ بسورا اور ناشتے کی تیاری کرنے لگیں۔
"اجی سنتے ہو! ذرا باہر سے دہی لا کر دو، دہی کے بغیر ناشتہ اچھا نہیں لگتا۔" خالہ ہلچل خالو ہلاگلا کو جھنجھوڑتے ہوئے بولیں۔
"اچھا ابھی جاتا ہوں۔" خالو ہلا گلا نے سعادت مندی سے کہا اور چپل پہن کر باہر دہی لینے چلے گئے، ابھی وہ گلی کا موڑ مڑ ہی رہے تھے کہ کَلّو قصائی افسوس بھرا لہجہ اپناتے ہوئے ان سے لپٹ گیا۔
"خالو ہلاگلا بہت افسوس ہوا، کہیں چور کوئی قیمتی سامان تو نہیں لے گئے؟ زیادہ نقصان تو نہیں ہوا نا…؟ جب سے سنا ہے میں بہت پریشان ہوں، آپ کی طرف ہی آ رہا تھا شکر ہے آپ راستے میں مل گئے، ارے میں نے آپ کے لئے دو موٹے تازے بکرے رکھے ہیں، انہیں خرید کر صدقہ کرو، صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے بلکہ چوروں کو بھی ٹال دے گا۔" کَلّو قصائی بول رہا تھا جب کہ خالو ہلاگلا سر پیٹنے لگے۔ بلی کا گھر میں گھسنا ان کو بہت مہنگا پڑ گیا تھا۔ ہر جگہ سے افسوس بھرے جملے سننے کو مل رہے تھے انہوں نے بڑی مشکل سے دہی خریدا اور افسوس بھرے جملوں کی بوچھاڑ سے بچتے ہوئے گھر واپس آ گئے، انہیں مولوی بشیر پر بہت غصہ آرہا تھا جس نے نماز کے دوران ان کے گھر ہونے والی "واردات" کا ڈھنڈورا پیٹا تھا۔
0 Comments