تحریر: حافظ نعیم احمد سیال ملتان
آدھا ماہ رمضان گزر چکا تھا، مگر خالہ ہلچل نے ابھی تک شاپنگ نہیں کی تھی، وہ روزانہ خالو ہلاگلا کا سر کھاتی تھیں کہ عید آنے والی ہے، مجھے کوئی اچھا سا جوڑا بنا دو، مگر خالو ہلاگلا بات کو ہوا میں اڑا دیتے،
آج بھی یہی ہوا، دراصل تھانےدارنی آج اپنے دو عدد سوٹ خالہ ہلچل کو دکھانے آئی تھی، وہ تو خالہ ہلچل کو سوٹ دکھا کے چلی گئی مگر خالہ ہلچل کے منہ میں پانی بھر آیا، پہلے تو تھوڑا سا پانی بھرا مگر شام کو پانی زیادہ ہوتے ہوتے ان کا پورا منہ بھر گیا، یہاں تک کہ گھر میں جتنے خالی برتن تھے، وہ بھی پانی سے بھر گئے، رات کو خالو ہلاگلا گھر آئے تو اتنا سارا پانی دیکھ کر حیران رہ گئے اور پوچھ بیٹھے۔
"ہلچل۔۔۔۔۔! خیریت تو ہے آج ہر جگہ پانی ہی پانی نظر آرہا ہے۔"
پہلے پہل تو خالہ ہلچل نے منہ بسورا پھر منہ بنایا پھر غصے سے تیوریاں چڑھائیں، یہ سب کچھ کرنے کے بعد پھر وہ اچانک ہی پھٹ پڑیں۔
"تمہیں پانی نظر آتا ہے لیکن یہ پانی کیوں آیا وہ تمہیں نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔" وہ رونے والے انداز میں معصوم بن کر بولیں۔
"واہ۔۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔۔ تمہاری معصومیت، پہلے اپنے منہ کے زاویے تو ٹھیک کرو، °30 سے °90 اور پھر °90 سے براہ راست °180 تک پہنچ گیا ہے۔" خالو ہلاگلا ریاضی کا علم پڑھانے والے انداز میں بولے۔
"اچھا تو تم میرے منہ کے زاویے ناپ رہے ہو؟ یہ نہیں پوچھتے کہ ہوا کیا ہے؟"
"ہاں تو بتاؤ، ہوا کیا ہے؟" خالو ہلاگلا بولے۔
"تھانےدار صاحب نے اپنی بیگم کو عید کے لیے دو سوٹ لا کر دیے ہیں، وہ بھی بالکل نئے، تم مجھے ایک سوٹ بھی نہیں لا کر دے سکتے۔" خالہ ہلچل اصل بات کی طرف آ ہی گئیں۔
"بیگم یہ تو بہت پرانی بات ہوگئی ہے، کوئی نئی بات کرو نا۔۔۔۔۔" خالو ہلاگلا نے اب کی بار بھی بات کو ہوا میں اڑانا چاہا۔
"مجھے ہر حال میں اس دفعہ نیا سوٹ چاہیے، اگر تم نے مجھے نیا سوٹ لا کر نہ دیا تو دیکھنا، اتنی ہلچل مچاؤں گی، اتنی ہلچل مچاؤں گی کہ تمہاری زندگی میں ہلاگلا کا نام تک نہیں رہے گا۔" خالہ ہلچل نے دھمکی دے ڈالی یہ سنتے ہی خالو ہلاگلا سٹپٹا گئے، آج انہیں اپنی بیگم کسی جلاد سے کم نہیں دکھائی دے رہی تھیں، آخر خالہ ہلچل کی دھمکی کام آ ہی گئی، اگلے ہی دن ایک نہیں، دو نہیں، تین عدد سوٹ خالو ہلاگلا خالہ ہلچل کے لئے لے آئے۔
"لو پکڑو۔۔۔۔۔" خالو ہلاگلا نے وہ سوٹ خالہ ہلچل کو دیے، خالہ ہلچل سوٹ لیتے ہی خوشی سے نہال ہوگئیں اور فوراً ہی برقع پہن کر باہر جانے لگیں۔
"ہلچل کہاں جا رہی ہو؟" خالو ہلاگلا نے ان کو یوں اچانک جاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔
"اس دن جو پانی تمہیں جگہ جگہ نظر آ رہا تھا ناں اب وہ پانی میں تھانےدارنی کے گھر پھینکنے جا رہی ہوں۔" خالہ ہلچل نے اشاروں سے بات کو لمبا چوڑا کر کے کہا تو خالو ہلاگلا حیران رہ گئے اور دونوں عورتوں کی کم عقلی پر افسوس کرنے لگے۔
بیسویں روزے کو خالو ہلاگلا کا ارادہ اعتکاف بیٹھنے کو تھا، اس لئے آج ان کے گھر میں خوب چہل پہل تھی، سارا خاندان خالو ہلاگلا کو اعتکاف بٹھانے کے لئے آیا ہوا تھا۔
آخر کار مغرب سے پہلے پہلے خالو ہلاگلا خوب تیار شیار ہو کر خاندان کی معیت میں مسجد پہنچ گئے، جہاں مولوی بشیر نے خوب ان کے شایان شان استقبال کیا۔
روزہ کھلنے اور نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد مولوی بشیر نے تمام معتکفین کو اعتکاف کے مسائل اور آداب و فضیلت کے بارے میں بتایا، یہ سنتے ہی سارے سبحان اللّٰہ سبحان اللّٰہ کرنے لگے۔
خالو ہلاگلا نے مسجد میں خوب عبادت کی، روزانہ تہجد کے وقت تمام معتکفین صلٰوۃالتسبیح کا اہتمام بھی کرتے تھے، جہاں ضرورت ہوتی مولوی بشیر سب کی راہ نمائی کر دیتا کیوں کہ مولوی بشیر بھی ان کے ساتھ ہی اعتکاف میں بیٹھ گیا تھا۔
کَلّو قصائی روزانہ نماز مغرب سے پہلے اپنی جیب خرچ سے تمام معتکفین کے لئے سموسے، پکوڑے، ٹھنڈے ٹھنڈے مشروب بھجواتا۔ روزہ کھل جانے کے بعد سارے مل کر کَلّو قصائی کی عمر درازی اور مال میں برکت کے لیے دعائیں کرتے۔
آخری روزے کو تو کَلّو قصائی نے سخاوت کی انتہا کر دی، اس نے دو عدد بکرے تمام معتکفین کے لئے ذبح کیے، تمام معتکفین آخری روزے کی دعوت کھا کر خوش ہو گئے، اس دوران عید کا چاند نظر آنے کا اعلان ہوگیا، تمام معتکفین ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے، خالو ہلاگلا کا پھر سارا خاندان مسجد میں موجود تھا، خالو ہلاگلا کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے، اس طرح وہ اعتکاف کے مزے لوٹ کر اپنے خاندان کے ہمراہ گھر تشریف لے آئے جہاں خاندان کی خواتین نے ان کا استقبال کیا۔
صبح مولوی بشیر نماز فجر کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر عید کی نماز کا وقت بتا رہا تھا، خالو ہلاگلا نہا دھو کر فارغ ہوئے اور تیاری کرنے کے بعد نماز عید کی ادائیگی کے لیے مسجد کی طرف چل دیے، ہر طرف خوشی کا سماں تھا اور مبارک باد کی آوازیں چاروں طرف گونج رہی تھیں، نماز پڑھنے کے بعد خالو ہلاگلا گھر آۓ تو تھانےدارنی خالہ ہلچل کے ساتھ بیٹھ کر سویاں کھا رہی تھی، انہوں نے تھانےدارنی کو مبارک باد دی پھر تھانےدار صاحب کا پوچھا کیوں کہ پورا ماہ رمضان ان کی تھانےدار سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
"وہ جی تھانےدار صاحب کی تو ڈیوٹی لگی ہوئی ہے، آپ کو تو پتا ہے میرے شوہر کو ان دنوں چھٹیاں ملتی ہی کب ہیں؟ بلکہ خاص خاص دنوں میں تو ان کی ڈیوٹی بڑھا دی جاتی ہے، پورا ماہ رمضان ایک مسجد کے باہر سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اب بھی وہ شہر کی کسی بڑی جامع مسجد کے باہر کھڑے ہو کر اپنے فرائض نبھا رہے ہوں گے۔" تھانےدارنی کی آنکھوں میں آنسو آگئے، وہ جذباتی ہو گئی، خالہ ہلچل نے فوراً ہی تھانےدارنی کو گلے لگا لیا۔
"ناں تھانےدارنی نا! روتے نہیں، یہی کردار تو عظیم ہوتے ہیں، جو اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر اپنی خوشیاں قربان کر لیتے ہیں، ہمارے کردار تو جھوٹے موٹے ہیں، کسی لکھاری کے تخلیق کردہ ہیں اور ہم اس لکھنے والے کے پابند ہوتے ہیں، لیکن ملک کی حفاظت کرنے والوں کا کردار کسی کا پابند نہیں ہوتا، وہ صرف اپنے فرائض کا پابند ہوتا ہے، اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کا پابند ہوتا ہے اور ایسے ہی کردار جو ملک کے رکھوالے ہوتے ہیں ان کا اللّٰہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔" خالہ ہلچل بول رہی تھیں، جب کہ تھانےدارنی نے خوشی سے ان کی طرف دیکھا اور آنسو پونچھتے ہوئے گھر چلی گئی، کیوں کہ "عظیم کردار" کی ڈیوٹی ختم ہونے کا وقت ختم ہونے والا تھا۔
0 Comments